Home Blog
یہودیوں کا بندر بن جانا
یہودیوں کا بندر بن جانا
روایت ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم کے 70 ہزار آدمی تھے۔ جو عقبہ کے پاس سمندر کے کنارے اِیلا نامی گاؤں میں رہتے تھے اور یہ لوگ بڑی ہی خوشحالی کی زندگی گزار رہے تھے
اللہ پاک نے ان لوگوں کا اس طرح سے امتحان لیا کہ ہفتے کے دن ان لوگوں پر مچھلی کا شکار حرام کر دیا۔ اور ہفتے کے باقی دنوں ان لوگوں پر مچھلی کا شکار حلال کر دیا۔ اس طرح اللہ تعالی نے ان لوگوں کو آزمائش میں ڈال دیا ہفتے کے دن بے شمار مچھلیاں آتی تھیں لیکن باقی دنوں میں کوئی بھی مچھلی نہیں آتی تھی۔
شیطان نے ان لوگوں کو بہکاوے میں ڈالا اور اس نے کہا کہ سمندر سے کچھ نالیاں بنا کر خشکی میں چند ہوض بنا لو اور جب ہفتے کے دن وہ مچھلیاں ان نالیوں کے ذریعے اس حوض میں آ جائیں تو نالیوں کا منہ بند کر دینا اس دن شکار مت کرنا اور ان سے اگلے دن ان مچھلیوں کو آسانی سے پکڑ لینا۔ وہ لوگ شیطان کے بہکاوے میں آگئے اور ان کو یہ شیطانی پسند آگئی۔
ان لوگوں کو نہیں معلوم تھا کہ جب نالیوں سے وہ مچھلیاں حوض میں آگئی تو یہی ان کا شکار ہو گیا۔ تو ہفتے ہی کے دن شکار کرنا پایا گیا جو کہ ان لوگوں پر حرام کر دیا گیا تھا۔
اس موقع پر یہودیوں کے تین گروہ ہو گئے
نمبر ایک: کچھ لوگ ایسے تھے جو شکار کے اس کھیل کو منع کرتے رہے
نمبر دو: کچھ لوگ اس کام کو دل سے برا مان کر خاموش رہے دوسروں کو منع نہیں کرتے تھے۔
نمبر تین: اور کچھ سرکش اور نافرمان لوگ تھے جنہوں نے حکم خداوندی کی خلاف ورزی کی اور شیطان کی ہیلہ بازی کو مان کر ہفتے کے دن شکار کر لیا۔
جب یہودیوں نے اللہ کی نافرمانی کی اور ہفتے کے دن شکار کر لیا اور منع کرنے والوں نے جب یہ کہا کہ ہم شکار کرنے والوں سے کوئی مل ملاپ نہیں رکھیں گے چنانچہ ان لوگوں نے گاؤں کے درمیان دیوار کھڑی کر لی اور گاؤں کو تقسیم کر دیا
حضرت داؤد علیہ السلام نے جب اپنی قوم کی یہ حالت دیکھی تو انہوں نے غضبناک ہو کر شکار کرنے والوں پر لعنت کی۔
اس کا اثر یہ ہوا کہ ایک بھی دن خطر کاروں سے کوئی باہر نہ نکلا تو انہیں دیکھنے کے لیے کچھ لوگ دیوار پہ چڑھ گئے تو کیا دیکھا وہ سب لوگ بندروں کی صورت اختیار کر چکے تھے۔
جب لوگ ان مجرموں کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے تو وہ بندر اپنے رشتہ داروں کو پہچانتے تھے وہ ان کے پاس آتے ان کو سونگھتے تھے اور روتے تھے۔ مگر وہ لوگ ان بندروں کو نہیں پہچانتے تھے۔ ان بندروں کی تعداد تقریبا 12 ہزار تھی۔
یہ سب تقریبا تین دن تک زندہ رہے اور کچھ کھائے پیے بغیر ہلاک ہو گئے۔ شکار سے منع کرنے والا گروہ زندہ سلامت بچ گئے۔ اور ایک وہ گروہ جو دل سے برا جان کر خاموش رہے تو اللہ تعالی نے ان کو بھی بچا لیا۔
یہودی قوم کا یہ واقعہ سورہ اعراف میں موجود ہے۔
معلوم ہوا کہ شیطان ہیلا بازیوں سے اللہ کے احکام کی نافرمانیوں کا انجام کتنا برا اور کس قدر خطرناک ہوتا ہے ۔ خدا کے نبی جن بد نصیبوں پہ لعنت فرما دیں وہ عذاب الہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور دنیا و آخرت اپنی زندگی برباد کر بیٹھتے ہیں۔
واقعہ کربلا

واقعہ کربلا
اے یزید تیرا تاج و تخت دو گھڑی کا تھا
آج بھی ہے دلوں پر حکومت حسین علیہ السلام کی۔
واقعہ کربلا حوصلے کا نام ہے یہ تاریخ اسلام کا وہ پرسوگ واقعہ ہے جو قیامت تک نہیں بھلایا جا سکتا جس میں نواسہ رسول امام حسین علیہ السلام شہید کر دیے گئے
یزید خلیفہ کے عہدے پر فیض ہو چکا تھا اس کے لیے سب سے بڑا خطرہ اللہ اور اس کے رسول دین اسلام پر ڈٹ جانے والے حضرت امام حسین علیہ السلام تھے جنہوں نے اپنے نانا کہ حق دین پہ ڈٹ جانے اور اس کو بچانے کی قسم کھا چکی تھی۔
امام حسین علیہ السلام کو کوفے سے بے شمار خطوط موصول ہوئے جس میں یزید کے ظلم اور غیر اسلامی نظام کے بارے میں لکھا گیا۔ یزید ابن معاویہ ان سے اپنے خلیفہ ہونے کی بیعت لینا چاہتا تھا
جس کو حسین ابن علی غیر قانونی ناجائز اور غیر شرعی سمجھتے تھے۔
امام حسین علیہ السلام نے کوفے میں اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو بھیجا اور ساتھ خط بھی لکھ کے بھیجا۔ خط میں کچھ یوں لکھا تھا کہ میں اپنے با اعتماد چچازاد بھائی کو آپ کی طرف بھیج رہا ہوں تاکہ وہ مجھے آپ لوگوں کے حالات سے آگاہ کرے۔
اس نے مجھے خبر دی کہ آپ لوگ وہی ہو جنہوں نے مجھے خط لکھے ہیں تو میں آپ کے ہاں آؤں گا اس وقت کوفے کا گورنر ابن زیاد تھا کوفے کے لوگ ابن زیاد کے ڈر سے مسلم بن عقیل کو تنہا چھوڑ چکے تھے۔
جب ابن زیاد کو پتہ چلا کہ مسلم بن عقیل کوفے میں ہے۔
ابن زیاد کو معلوم تھا کہ ہاشمی خاندان کو آسانی سے نہیں نپٹا جا سکتا،
تو ابن زیاد نے لاکھوں کی تعداد میں لشکر کو بھیجا مسلم بن عقیل بہت ہی جرات کے ساتھ جنگ لڑتے رہے لیکن پھر انہیں گرفتار کر لیا گیا ابن زیاد نے بھی بیت کا مطالبہ کیا لیکن مسلم بن عقیل نے بیعت نہیں کی اور ابن زیاد کے حکم پر ان نے کوفے کی چھت سے دھکہ دے کر شہید کر دیا گیا
امام حسین علیہ السلام مکہ چھوڑ کی کوفے کی طرف ہی روانہ تھے پھر ان کو معلوم ہوا کہ مسلم بن عقیل شہید کر دیے گئے ہیں پھر وہاں سے امام حسین علیہ السلام نے کربلا کی طرف رخ کر لیا اور اپنے خاندان کے ساتھ کربلا جا پہنچے وہاں ایک قبیلہ آباد تھا اس قبیلے کا نام بنی اسد تھا اور پھر امام حسین علیہ السلام نے وہ بنی اسد کے قبیلے سے زمین خرید لی امام حسین علیہ السلام کو اپنے بیٹے علی اکبر سے بہت زیادہ پیار تھا کیونکہ وہ شبیہ رسول بھی تھے اس لیے انہوں نے وہ زمین انہی کے نام وقف کر دی اور اس زمین کا نام جاگیر علی اکبر رکھ دیا
یکم محرم کو امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں اپنے خاندان کے ساتھ پڑاؤ ڈالا
روایت کے مطابق امام حسین علیہ السلام سے جنگ کرنے کے لیے سب سے پہلے عمر ابن سعد کا پرچم بلند ہوا عمر ابن سعد 4 ہزار فوجی لشکر کے ساتھ کربلا پہنچا
ادھر چار محرم کو ابن زیاد نے مسجد سے کوفہ میں خطبہ دیا اور لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کے خلاف بھڑکایا اور اس نے کہا کہ یزید کا حکم ہے کہ اس کی بیعت کی جائے تو ان کے گھر خزانوں سے بھر دیے جائیں گے بہت سے لوگوں نے امام حسین علیہ السلام سے دشمنی مول لے لی۔ اور امام حسین علیہ السلام سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔
ان میں سب سے پہلے شمر ملعون نے جانے کی درخواست کی۔ پانچ اور چھ کو بہت سے چھوٹے بڑے یزیدی لشکر کربلا میں جمع ہو گئے جس کے بعد ابن زیاد نے 70 ہزار لشکر اور بھیجا۔ سات محرم کو امام حسین علیہ السلام اور ان کے خاندان پہ پانی بند کر دیا گیا۔ چھٹی شب کو امام حسین علیہ السلام کے خیموں میں پانی ختم ہو چکا تھا اٹھ محرم کو عمر بن سعد نے پیغام بھیجا امام حسین علیہ السلام کی طرف کہ یزید کی بیعت کر لیں یا پھر جنگ کے لیے تیار ہو جائیں امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا اور خود کو اور اپنے کنبے کو دین کی خاطر قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا ایسا شخص جو ظالم ہے دنیاوی لذتوں میں ڈوبا ہوا ہے احکام الہی کی بے رحمی سے خلاف ورزی کرتا ہے اور کھلے دربار میں رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مذاق اڑاتا ہے تو ہمیں یزید کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کروں گا
اس کے بعد شمر جو یزید کی فوج کا کمانڈو تھا اس نے حضرت عباس کے خیمے کے پاس آ کر کہا کہ تم یزید کی بیعت کر لو اور امام حسین کا ساتھ چھوڑ دو یزید تمہیں مالا مال کر دے گا حضرت عباس علیہ السلام نے اس کی یہ پیشکش ٹھکرا دی حضرت عباس علمدار علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کہ کمانڈو بھی تھے اور فوج کے سپہ سالار بھی تھے حضرت عباس علیہ السلام جوان دلیر اور بہت بہادر تھے امام حسین علیہ السلام کو حضرت عباس علیہ السلام پر بہت ناز تھا اور بی بی زینب سلام اللہ علیہا بھی بہت ناز کرتی تھی کیونکہ وہ اتنے نڈر تھے کہ وہ اکیلے یزیدی فوج پہ بھاری تھے۔
نو محرم کو اور امام حسین علیہ السلام کو اطلاع ملی کہ دشمن حملہ کرنے کے لیے تیار کھڑا ہے اور امام حسین علیہ السلام سے کہا کہ ان سے ایک رات کی مہلت مانگ لیں اس طرح یزیدی فوج کو ایک رات سوچنے کا موقع مل جائے گا
اور نواسہ رسول یہ رات اپنے پروردگار کی عبادت اور دعا میں بسر کریں گے
امام حسین علیہ السلام کو اپنی بیٹی بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا بہت پیاری تھی اور خصوصاً وہ رات انہوں نے اپنی بیٹی کے ساتھ گزاری کیونکہ کل انہوں نے شہید ہو جانا تھا
امام حسین علیہ السلام اور عمر بن سعد کے درمیان یہ آخری گفتگو تھی حملہ ایک دن کے لیے ملتوی ہو گیا۔
بچوں کا پانی روک دیا گیا تھا اور جب رات کی تاریکی ہوئی تو انہوں نے اپنے ساتھیوں کو بلایا امام حسین علیہ السلام نے ان سے مخاطب ہو کر کہا کسی کے ساتھیوں کو اپنے ساتھیوں سے زیادہ وفادار اور بہتر نہیں سمجھتا اللہ تعالی تم سب کو میری طرف سے جزائے خیر عطا کرے
اور جو جانا چاہتا ہے وہ اس رات کی تاریکی میں چلا جائے
امام حسین علیہ السلام کے اصحاب اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے ہم آپ پر اپنی جانیں قربان کر دیں گے
10 محرم کا سورج طلوع ہوا اور امام حسین علیہ السلام امامت کروا رہے تھے اتنے میں یزیدی فوج نے تیروں کی برسات شروع کر دی اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے بہت سارے ساتھی شہید ہو گئے۔
اس طرح جنگ کا اغاز ہو گیا اور ایک ایک کر کے تمام جانسار اپ پر جانے قربان کرتے گئے۔
چھ ماہ کے علی اصغر پیاس سے تڑپ رہے تھے امام حسین علیہ السلام اپنی گود میں جناب علی اصغر علیہ السلام کو خیمے سے باہر لے کر آئے۔ اور با آواز بلند اپنا تعارف کروایا اور فرمایا میں حسین ابن علی ہوں حضرت محمد کا نواسہ اور فاطمہ کا بیٹا مجھے قتل کر کے جہنم خریدتے ہو۔ امام حسین علیہ السلام نے جناب علی اصغر کو اپنے ہاتھوں پہ بلند کیا دو گھونٹ پانی کے لیے
ادھر شمر ملعون نے حرملہ کو حکم دیا جو کہ بہت بڑا تیر انداز تھا حرملہ ملعون نے وہ تیر استعمال کیا جو جانوروں کو مارنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اس ملعون نے اس تیر سے حملہ کیا اور اور تیر حضرت علی اصغر کے گلے میں جا لگا۔ سوکھا گلا خون سے تر ہو گیا اور جناب علی اصغر علیہ السلام شہید ہو گئے۔
اس طرح ایک ایک کر کے امام حسین علیہ السلام کا کنبہ شہید ہوتا گیا۔ حضرت عباس نے بہت اجازت مانگی جنگ کے لیے لیکن امام حسین علیہ السلام نے اجازت نہیں دی امام حسین علیہ السلام نے حضرت عباس علمدار علیہ السلام کو صرف خیموں کی حفاظت کے لیے رکھا ہوا تھا اور امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ عباس اگر تم چلے گئے تو میری کمر ٹوٹ جائے گی اخر کار بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا نے اپنے چچا عباس کے لیے اپنے بابا سے سفارش کی اور ان کو پانی لانے کے لیے اجازت مل گئی لیکن امام حسین علیہ السلام نے حضرت عباس علمدار کو تلوار نہیں دی صرف نیزہ اور مشک دیا پانی لانے کے لیے
حضرت عباس علمدار علیہ السلام بہت نڈر اور بہادر تھے وہ یزیدی لشکر کو چیرتے ہوئے دریا تک پہنچ گئے اور مشک کو بھر کر دوبارہ واپس خیموں کی طرف جب چلے تو لاکھوں کی تعداد میں حضرت عباس علمدار علیہ السلام پہ یزیدی لشکر نے حملہ کر دیا حضرت عباس علمدار علیہ السلام کے دونوں بازو قلم کر دیے گئے اور حضرت عباس بھی شہید ہو گئے۔ امام حسین علیہ السلام کی کمر جھک گئی اور بہت زیادہ غمزدہ ہو گئے۔
لیکن امام حسین علیہ السلام بہت ہی بہادری سے لڑے اور بہت سے دشمنوں کو فنار کیا اور یزیدی لشکر کے بہت سے دشمنوں کو واصل جہنم بھی کیا
ادھر نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا امام حسین علیہ السلام نے تیمم کیا اور نماز عصر کے لیے کھڑے ہو گئے یزیدی فوج نے تیروں کی برسات کر دی لیکن پھر بھی کوئی اپ کے نزدیک نہیں آ سکتا تھا
جب آپ علیہ السلام سجدہ ریز ہوئے تو شمر ملعون نے آپ پہ تلوار کا حملہ کیا اور آپ کا سر تن سے جدا کر دیا۔
بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے یزید کے دربار میں ایک یادگار خطبہ دیا بی بی زینب نے یزید کو کہا تو ساری طاقت بھی لگا دے تو تو میرے نانا کے دین کو نہیں مٹا سکتا اسلام اور ہمارا نام قیامت تک رہے گا۔
آج 1400 سال گزر چکے ہیں کربلا اج بھی زندہ ہے اور قیامت تک رہے گا۔
Inspirational Quotes

Inspirational Quotes provides motivation and encouragement and will make you feel like you can accomplish something. Inspirational quotes will make you happy and you will learn a lot of things in your life. Inspirational quotes have the power to change your prospective and can stick with you for life. Inspirational Quotes motivate people to achieve their goals. Inspirational quotes encourage you to stay inspired is to work with creative and positive people. So here is the beautiful and sensational inspirational quotes to change your life…..
اگر ہم سے غلطی ہو جائے تو ابلیس کی طرح دلیر نہیں ہونا چاہئے
بلکہ معافی مانگ لینی چاہئے کیونکہ ہم ابن آدم ہیں ابن ابلیس نہیں۔
نفرتیں پالنے والے لوگ بہت کمزور ہوتے ہیں جن میں محبتیں نبھانے کی سکت نہیں ہوتی۔