Home Blog

ایک بھیڑیے کا واقعہ

0

 

ایک بھیڑیے کا واقعہ

کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان بن داؤد علیہما السلام کے ایک چرواہے کی نگرانی میں کچھ بھیڑیں تھیں۔ ایک دن اس کے پاس ایک بھیڑیا آیا اور بولا:

“مجھے ایک بھیڑ دے دو!”

چرواہے نے حیران ہو کر جواب دیا:

“یہ بھیڑیں حضرت سلیمان علیہ السلام کی ملکیت ہیں، میں تو بس ان کا رکھوالا ہوں!”

بھیڑیا بولا:

“تو جا کر حضرت سلیمان سے پوچھ لو کہ کیا وہ مجھے ایک بھیڑ دینے کی اجازت دیتے ہیں؟”

چرواہے نے کہا:

“مجھے ڈر ہے کہ اگر میں چلا گیا تو تم بھیڑوں پر حملہ کر دو گے۔”

بھیڑیا ہنسا اور بولا:

“جب تک تم واپس نہ آ جاؤ، میں خود بھیڑوں کی نگرانی کروں گا، الله نہ کرے کہ میں خیانت کروں لیکن اگر میں نے خیانت کی تو میں آخری امت کا قربِ قیامت والا ایک آدمی بن جاؤں” (یعنی اپنے آپ کو بد دعاء دی کہ ہم یعنی موجودہ مسلمانوں کی طرح ہو جاؤں، جو کہ افسوسناک ہے)

یہ سن کر چرواہا روانہ ہو گیا۔

راستے کی حیرت انگیز نشانیاں

چلتے ہوئے چرواہے نے تین عجیب و غریب مناظر دیکھے:

1️⃣ پہلی نشانی: اس نے ایک گائے کو اپنی ہی بچی کا دودھ پیتے دیکھا! حیران ہو کر اس نے سوچا: “سبحان الله! میں نے اس جیسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا، اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟”

2️⃣ دوسری نشانی: آگے بڑھا تو ایسے لوگ دیکھے جو بوسیدہ کپڑے پہنے ہوئے تھے، مگر ان کے ہاتھوں میں سونے کی تھیلیاں بھری پڑی تھیں! چرواہے نے سوچا: “یہ بھی بڑی عجیب بات ہے، ان کے پاس سونا ہے مگر یہ پھر بھی فقیر نظر آ رہے ہیں!”

3️⃣ تیسری نشانی: کچھ اور آگے بڑھا تو ایک بہتا ہوا چشمہ نظر آیا، پیاس کی شدت میں جیسے ہی قریب پہنچا، تو بدبو نے اسے روک دیا۔ پانی کی بدبو اتنی شدید تھی کہ وہ پیچھے ہٹ گیا اور حیران ہو کر بولا: “یہ کیسی بات ہے؟ بہتا ہوا پانی اور اتنا گندا؟”

حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکمت بھری وضاحت

بالآخر وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچا اور بھیڑیے کی درخواست بیان کی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا:

“ٹھیک ہے ، میں نے اسے اجازت دی کہ وہ ایک بھیڑ چن کر کھا لے۔”

چرواہے نے عرض کیا:

“حکم بجا لاتا ہوں، مگر راستے میں تین عجیب چیزیں دیکھی ہیں، ان کی حقیقت جاننا چاہتا ہوں۔”

✦ پہلی نشانی کا جواب:

“یہ آخری زمانے کی نشانی ہے۔ مائیں اپنی بیٹیوں کو فتنہ میں مبتلا کریں گی تاکہ خود فائدہ حاصل کر سکیں۔”

✦ دوسری نشانی کا جواب:

“یہ لوگ ڈاکو اور چور ہیں۔ جو مال حرام سے آتا ہے، اس میں برکت ختم ہو جاتی ہے۔ آخری زمانے میں حرام کمائی عام ہو جائے گی، قناعت ختم ہو جائے گی اور برکت اٹھا لی جائے گی۔”

✦ تیسری نشانی کا جواب:

“یہ بھی آخری زمانے کے نام نہاد دیندار ہیں۔ دور سے دیکھو تو ان کا لباس دین داری کا ہوگا، مگر جب قریب جاؤ گے تاکہ کچھ سیکھ سکو، تو پاؤ گے کہ وہ دنیا اور خواہشات میں ڈوبے ہوئے ہیں۔”

یہ سن کر چرواہے نے تڑپ کر کہا:

“میں اس زمانے کے فتنے سے الـلــَّـه کی پناہ مانگتا ہوں!”

بھیڑیے کی حیران کن دیانتداری

چرواہا واپس آیا تو دیکھا کہ بھیڑیا واقعی بھیڑوں کی نگرانی کر رہا تھا۔

اس نے کہا:

“حضرت سلیمان نے تمہیں اجازت دے دی ہے کہ تم کسی بھی بھیڑ کو چن کر کھا سکتے ہو۔”

بھیڑیے نے بھیڑوں پر نظر دوڑائی اور ایک کمزور، بیمار بھیڑ کو چن لیا۔

چرواہے نے حیرت سے پوچھا:

“تم نے یہی بھیڑ کیوں چنی؟”

بھیڑیا بولا:

“کیونکہ یہ اپنے رب کی تسبیح سے غافل تھی! جو اپنے رب کے ذکر سے غافل ہو، وہ بہت بڑی آزمائش میں ہوتا ہے۔

یہودیوں کا بندر بن جانا

0

یہودیوں کا بندر بن جانا

روایت ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم کے 70 ہزار آدمی تھے۔ جو عقبہ کے پاس سمندر کے کنارے اِیلا نامی گاؤں میں رہتے تھے اور یہ لوگ بڑی ہی خوشحالی کی زندگی گزار رہے تھے

اللہ پاک نے ان لوگوں کا اس طرح سے امتحان لیا کہ ہفتے کے دن ان لوگوں پر مچھلی کا شکار حرام کر دیا۔  اور ہفتے کے باقی دنوں ان لوگوں پر مچھلی کا شکار حلال کر دیا۔ اس طرح اللہ تعالی نے ان لوگوں کو آزمائش میں ڈال دیا ہفتے کے دن بے شمار مچھلیاں آتی تھیں لیکن باقی دنوں میں کوئی بھی مچھلی نہیں آتی تھی۔

شیطان نے ان لوگوں کو بہکاوے میں ڈالا اور اس نے کہا کہ سمندر سے کچھ نالیاں بنا کر خشکی میں چند ہوض بنا لو اور جب ہفتے کے دن وہ مچھلیاں ان نالیوں کے ذریعے اس حوض میں آ جائیں تو نالیوں کا منہ بند کر دینا اس دن شکار مت کرنا اور ان سے اگلے دن ان مچھلیوں کو آسانی سے پکڑ لینا۔ وہ لوگ شیطان کے بہکاوے میں آگئے اور ان کو یہ شیطانی پسند آگئی۔

ان لوگوں کو نہیں معلوم تھا کہ جب نالیوں سے وہ مچھلیاں حوض میں آگئی تو یہی ان کا شکار ہو گیا۔ تو ہفتے ہی کے دن شکار کرنا پایا گیا جو کہ ان لوگوں پر حرام کر دیا گیا تھا۔

اس موقع پر یہودیوں کے تین گروہ ہو گئے

نمبر ایک: کچھ لوگ ایسے تھے جو شکار کے اس کھیل کو منع کرتے رہے

نمبر دو: کچھ لوگ اس کام کو دل سے برا مان کر خاموش رہے دوسروں کو منع نہیں کرتے تھے۔

نمبر تین: اور کچھ سرکش اور نافرمان لوگ تھے جنہوں نے حکم خداوندی کی خلاف ورزی کی اور شیطان کی ہیلہ بازی کو مان کر ہفتے کے دن شکار کر لیا۔

جب یہودیوں نے اللہ کی نافرمانی کی اور ہفتے کے دن شکار کر لیا اور منع کرنے والوں نے جب یہ کہا کہ ہم شکار کرنے والوں سے کوئی مل ملاپ نہیں رکھیں گے چنانچہ ان لوگوں نے گاؤں کے درمیان دیوار کھڑی کر لی اور گاؤں کو تقسیم کر دیا

حضرت داؤد علیہ السلام نے جب اپنی قوم کی یہ حالت دیکھی تو انہوں نے غضبناک ہو کر شکار کرنے والوں پر لعنت کی۔

اس کا اثر یہ ہوا کہ ایک بھی دن خطر کاروں سے کوئی باہر نہ نکلا تو انہیں دیکھنے کے لیے کچھ لوگ دیوار پہ چڑھ گئے تو کیا دیکھا وہ سب لوگ بندروں کی صورت اختیار کر چکے تھے۔

جب لوگ ان مجرموں کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے تو وہ بندر اپنے رشتہ داروں کو پہچانتے تھے وہ ان کے پاس آتے ان کو سونگھتے تھے اور روتے تھے۔ مگر وہ لوگ ان بندروں کو نہیں پہچانتے تھے۔ ان بندروں کی تعداد تقریبا 12 ہزار تھی۔

یہ سب تقریبا تین دن تک زندہ رہے اور کچھ کھائے پیے بغیر ہلاک ہو گئے۔ شکار سے منع کرنے والا گروہ زندہ سلامت بچ گئے۔ اور ایک وہ گروہ جو دل سے برا جان کر خاموش رہے تو اللہ تعالی نے ان کو بھی بچا لیا۔

یہودی قوم کا یہ واقعہ سورہ اعراف میں موجود ہے۔

معلوم ہوا کہ شیطان ہیلا بازیوں سے اللہ کے احکام کی نافرمانیوں کا انجام کتنا برا اور کس قدر خطرناک ہوتا ہے ۔ خدا کے نبی جن بد نصیبوں پہ لعنت فرما دیں وہ  عذاب الہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں  اور دنیا و آخرت اپنی زندگی برباد کر بیٹھتے ہیں۔

قوم لوط

0

قوم لوط

دنیا میں سب سے پہلے بد فعلی شیطان نے کروائی شیطان قوم لوط میں ایک خوبصورت لڑکے کی شکل میں آیا اور ان لوگوں کو اپنی طرف مائل کیا

قوم لوط ایسے گھنونے کام میں مبتلا ہو گئ مرد عورتوں کو چھوڑ کر اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ بد فعلی کرنا شروع ہو گئے

حضرت لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کو اس برے کام سے منع کیا اور کہا کہ ایسا کام کرتے ہو جو تم سے پہلے کسی نے نہیں کیا

حضرت لوط علیہ السلام نے کہا کہ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی شہوت پوری کرتے ہو حضرت لوط علیہ السلام نے کئی بار ان کو منع کرنے کی کوشش کی لیکن قوم لوط باز نہ آئی۔

جب قوم لوط کی یہ بری خصلت ہدایت کے قابل نہ رہی تو اللہ پاک نے عذاب نازل کیا۔

حضرت جبرائیل علیہ السلام چند فرشتوں کے ساتھ خوبصورت لڑکوں کی شکل میں مہمان بن کر حضرت لوط علیہ السلام کے پاس آئے۔ ان مہمانوں کا حسن جمال دیکھ کر قوم کی بدکاری کی خصلت دیکھ کر حضرت لوط علیہ السلام بہت فکر مند ہوۓ۔

تھوڑی دیر کے بعد قوم نے حضرت لوط علیہ السلام کے گھر کو گھیر لیا اور ان مہمانوں کے ساتھ بدفعلی کرنے کے لیے دیوار پہ چڑھنے لگے حضرت لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کو سمجھایا مگر وہ باز نہ آئے۔

حضرت لوط علیہ السلام کو رنجیدہ دیکھ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا اے اللہ کے نبی آپ فکر مند اور رنجیدہ نہ ہو ہم فرشتے ہیں اور اللہ پاک کے حکم سے اس قوم کے لیے عذاب لے کر اترے ہیں۔

حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت لوط علیہ السلام سے کہا کہ آپ مومنین اور اپنے گھر والوں کو ساتھ لے کر اس بستی سے کہیں دور نکل جائیں اور خبردار کوئی بھی بستی کی طرف پیچھے مڑ کر نہ دیکھے نہی تو وہ بھی اس عذاب میں مبتلا ہو جائے گا

حضرت لوط علیہ السلام اپنے مومنین اور گھر والوں کو ساتھ لے کر اس بستی سے باہر چلے گئے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس شہر کی بستی کو اپنے پیروں پہ اٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور پھر اس بستی کو زمین پہ الٹ دیا پھر اس قوم پہ پتھروں کی بارش ایسی بارش کی کہ لوط تباہ و برباد ہو گئی۔

اسی وقت جب قوم لوط پر عذاب الہی نازل ہو رہا تھا حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی جن کا نام واعلہ تھا

جو کہ حقیقت میں منافقہ تھی۔ اور قوم کے بدکاروں سے محبت رکھتی تھی اس نے جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا ہاۓ میری قوم

تو اسی وقت ایک بڑا سا پتھر اس کے اوپر آ گرا اور وہ بھی وہیں پہ ہلاک ہو گئی۔

عین اسی وقت حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کا ایک تاجر اس وقت کاروبار کی وجہ سے مکہ آیا ہوا تھا

اس کے نام کا پتھر وہیں پہنچ گیا لیکن وہ اس وقت حرم میں موجود تھا تو پتھر اپنی جگہ 40 دن تک ساقط ہو گیا جیسے ہی وہ تاجر حرم سے باہر نکلا وہ پتھر اس کے اوپر آ گرا اور وہ بھی ہلاک ہو گیا۔

واقعہ کربلا

0
{"remix_data":[],"remix_entry_point":"challenges","source_tags":["local"],"origin":"unknown","total_draw_time":0,"total_draw_actions":0,"layers_used":0,"brushes_used":0,"photos_added":0,"total_editor_actions":{},"tools_used":{"addons":1},"is_sticker":false,"edited_since_last_sticker_save":true,"containsFTESticker":false}

واقعہ کربلا

اے یزید تیرا تاج و تخت دو گھڑی کا تھا
آج بھی ہے دلوں پر حکومت حسین علیہ السلام کی۔

واقعہ کربلا حوصلے کا نام ہے یہ تاریخ اسلام کا وہ پرسوگ واقعہ ہے جو قیامت تک نہیں بھلایا جا سکتا جس میں نواسہ رسول امام حسین علیہ السلام شہید کر دیے گئے
یزید خلیفہ کے عہدے پر فیض ہو چکا تھا اس کے لیے سب سے بڑا خطرہ اللہ اور اس کے رسول دین اسلام پر ڈٹ جانے والے حضرت امام حسین علیہ السلام تھے جنہوں نے اپنے نانا کہ حق دین پہ ڈٹ جانے اور اس کو بچانے کی قسم کھا چکی تھی۔
امام حسین علیہ السلام کو کوفے سے بے شمار خطوط موصول ہوئے جس میں یزید کے ظلم اور غیر اسلامی نظام کے بارے میں لکھا گیا۔ یزید ابن معاویہ ان سے اپنے خلیفہ ہونے کی بیعت لینا چاہتا تھا
جس کو حسین ابن علی غیر قانونی ناجائز اور غیر شرعی سمجھتے تھے۔
امام حسین علیہ السلام نے کوفے میں اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو بھیجا اور ساتھ خط بھی لکھ کے بھیجا۔ خط میں کچھ یوں لکھا تھا کہ میں اپنے با اعتماد چچازاد بھائی کو آپ کی طرف بھیج رہا ہوں تاکہ وہ مجھے آپ لوگوں کے حالات سے آگاہ کرے۔
اس نے مجھے خبر دی کہ آپ لوگ وہی ہو جنہوں نے مجھے خط لکھے ہیں تو میں آپ کے ہاں آؤں گا اس وقت کوفے کا گورنر ابن زیاد تھا کوفے کے لوگ ابن زیاد کے ڈر سے مسلم بن عقیل کو تنہا چھوڑ چکے تھے۔
جب ابن زیاد کو پتہ چلا کہ مسلم بن عقیل کوفے میں ہے۔
ابن زیاد کو معلوم تھا کہ ہاشمی خاندان کو آسانی سے نہیں نپٹا جا سکتا،
تو ابن زیاد نے لاکھوں کی تعداد میں لشکر کو بھیجا مسلم بن عقیل بہت ہی جرات کے ساتھ جنگ لڑتے رہے لیکن پھر انہیں گرفتار کر لیا گیا ابن زیاد نے بھی بیت کا مطالبہ کیا لیکن مسلم بن عقیل نے بیعت نہیں کی اور ابن زیاد کے حکم پر ان نے کوفے کی چھت سے دھکہ دے کر شہید کر دیا گیا
امام حسین علیہ السلام مکہ چھوڑ کی کوفے کی طرف ہی روانہ تھے پھر ان کو معلوم ہوا کہ مسلم بن عقیل شہید کر دیے گئے ہیں پھر وہاں سے امام حسین علیہ السلام نے کربلا کی طرف رخ کر لیا اور اپنے خاندان کے ساتھ کربلا جا پہنچے وہاں ایک قبیلہ آباد تھا اس قبیلے کا نام بنی اسد تھا اور پھر امام حسین علیہ السلام نے وہ بنی اسد کے قبیلے سے زمین خرید لی امام حسین علیہ السلام کو اپنے بیٹے علی اکبر سے بہت زیادہ پیار تھا کیونکہ وہ شبیہ رسول بھی تھے اس لیے انہوں نے وہ زمین انہی کے نام وقف کر دی اور اس  زمین کا نام جاگیر علی اکبر رکھ دیا
یکم محرم کو امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں اپنے خاندان کے ساتھ پڑاؤ ڈالا
روایت کے مطابق امام حسین علیہ السلام سے جنگ کرنے کے لیے سب سے پہلے عمر ابن سعد کا پرچم بلند ہوا عمر ابن سعد 4 ہزار فوجی لشکر کے ساتھ کربلا پہنچا
ادھر چار محرم کو ابن زیاد نے مسجد سے کوفہ میں خطبہ دیا اور لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کے خلاف بھڑکایا اور اس نے کہا کہ یزید کا حکم ہے کہ اس کی بیعت کی جائے تو ان کے گھر خزانوں سے بھر دیے جائیں گے بہت سے لوگوں نے امام حسین علیہ السلام سے دشمنی مول لے لی۔ اور امام حسین علیہ السلام سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔
ان میں سب سے پہلے شمر ملعون نے جانے کی درخواست کی۔ پانچ اور چھ کو بہت سے چھوٹے بڑے یزیدی لشکر کربلا میں جمع ہو گئے جس کے بعد ابن زیاد نے 70 ہزار لشکر اور بھیجا۔ سات محرم کو امام حسین علیہ السلام اور ان کے خاندان پہ پانی بند کر دیا گیا۔ چھٹی شب کو امام حسین علیہ السلام کے خیموں میں پانی ختم ہو چکا تھا اٹھ محرم کو عمر بن سعد نے پیغام بھیجا امام حسین علیہ السلام کی طرف کہ یزید کی بیعت کر لیں یا پھر جنگ کے لیے تیار ہو جائیں امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا اور خود کو اور اپنے کنبے کو دین کی خاطر قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا ایسا شخص جو ظالم ہے دنیاوی لذتوں میں ڈوبا ہوا ہے احکام الہی کی بے رحمی سے خلاف ورزی کرتا ہے اور کھلے دربار میں رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مذاق اڑاتا ہے تو ہمیں یزید کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کروں گا
اس کے بعد شمر جو یزید کی فوج کا کمانڈو تھا اس نے حضرت عباس کے خیمے کے پاس آ کر کہا کہ تم یزید کی بیعت کر لو اور امام حسین کا ساتھ چھوڑ دو یزید تمہیں مالا مال کر دے گا حضرت عباس علیہ السلام نے اس کی یہ پیشکش ٹھکرا دی حضرت عباس علمدار علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کہ کمانڈو بھی تھے اور فوج کے سپہ سالار بھی تھے حضرت عباس علیہ السلام جوان دلیر اور بہت بہادر تھے امام حسین علیہ السلام کو حضرت عباس علیہ السلام پر بہت ناز تھا اور بی بی زینب سلام اللہ علیہا بھی بہت ناز کرتی تھی کیونکہ وہ اتنے نڈر تھے کہ وہ اکیلے یزیدی فوج پہ بھاری تھے۔
نو محرم کو اور امام حسین علیہ السلام کو اطلاع ملی کہ دشمن حملہ کرنے کے لیے تیار کھڑا ہے اور امام حسین علیہ السلام سے کہا کہ ان سے ایک رات کی مہلت مانگ لیں اس طرح یزیدی فوج کو ایک رات سوچنے کا موقع مل جائے گا
اور نواسہ رسول یہ رات اپنے پروردگار کی عبادت اور دعا میں بسر کریں گے
امام حسین علیہ السلام کو اپنی بیٹی بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا بہت پیاری تھی اور خصوصاً وہ رات انہوں نے اپنی بیٹی کے ساتھ گزاری کیونکہ کل انہوں نے شہید ہو جانا تھا
امام حسین علیہ السلام اور عمر بن سعد کے درمیان یہ آخری گفتگو تھی حملہ ایک دن کے لیے ملتوی ہو گیا۔
بچوں کا پانی روک دیا گیا تھا اور جب رات کی تاریکی ہوئی تو انہوں نے اپنے ساتھیوں کو بلایا امام حسین علیہ السلام نے ان سے مخاطب ہو کر کہا کسی کے ساتھیوں کو اپنے ساتھیوں سے زیادہ وفادار اور بہتر نہیں سمجھتا اللہ تعالی تم سب کو میری طرف سے جزائے خیر عطا کرے
اور جو جانا چاہتا ہے وہ اس رات کی تاریکی میں چلا جائے
امام حسین علیہ السلام کے اصحاب اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے ہم آپ پر اپنی جانیں قربان کر دیں گے
10 محرم کا سورج طلوع ہوا اور امام حسین علیہ السلام امامت کروا رہے تھے اتنے میں یزیدی فوج نے تیروں کی برسات شروع کر دی اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے بہت سارے ساتھی شہید ہو گئے۔
اس طرح جنگ کا اغاز ہو گیا اور ایک ایک کر کے تمام جانسار اپ پر جانے قربان کرتے گئے۔
چھ ماہ کے علی اصغر پیاس سے تڑپ رہے تھے امام حسین علیہ السلام اپنی گود میں جناب علی اصغر علیہ السلام کو خیمے سے باہر لے کر آئے۔ اور با آواز بلند اپنا تعارف کروایا اور فرمایا میں حسین ابن علی ہوں حضرت محمد کا نواسہ اور فاطمہ کا بیٹا مجھے قتل کر کے جہنم خریدتے ہو۔ امام حسین علیہ السلام نے جناب علی اصغر کو اپنے ہاتھوں پہ بلند کیا دو گھونٹ پانی کے لیے
ادھر شمر ملعون نے حرملہ کو حکم دیا جو کہ بہت بڑا تیر انداز تھا حرملہ ملعون نے وہ تیر استعمال کیا جو جانوروں کو مارنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اس ملعون نے اس تیر سے حملہ کیا اور اور تیر حضرت علی اصغر کے گلے میں جا لگا۔ سوکھا گلا خون سے تر ہو گیا اور جناب علی اصغر علیہ السلام شہید ہو گئے۔
اس طرح ایک ایک کر کے امام حسین علیہ السلام کا کنبہ شہید ہوتا گیا۔ حضرت عباس نے بہت اجازت مانگی جنگ کے لیے لیکن امام حسین علیہ السلام نے اجازت نہیں دی امام حسین علیہ السلام نے حضرت عباس علمدار علیہ السلام کو صرف خیموں کی حفاظت کے لیے رکھا ہوا تھا اور امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ عباس اگر تم چلے گئے تو میری کمر ٹوٹ جائے گی اخر کار بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا نے اپنے چچا عباس کے لیے اپنے بابا سے سفارش کی اور ان کو پانی لانے کے لیے اجازت مل گئی لیکن امام حسین علیہ السلام نے حضرت عباس علمدار کو تلوار نہیں دی صرف نیزہ اور مشک دیا پانی لانے کے لیے
حضرت عباس علمدار علیہ السلام بہت نڈر اور بہادر تھے وہ یزیدی لشکر کو چیرتے ہوئے دریا تک پہنچ گئے اور مشک کو بھر کر دوبارہ واپس خیموں کی طرف جب چلے تو لاکھوں کی تعداد میں حضرت عباس علمدار علیہ السلام پہ یزیدی لشکر نے حملہ کر دیا حضرت عباس علمدار علیہ السلام کے دونوں بازو قلم کر دیے گئے اور حضرت عباس بھی شہید ہو گئے۔ امام حسین علیہ السلام کی کمر جھک گئی اور بہت زیادہ غمزدہ ہو گئے۔
لیکن امام حسین علیہ السلام بہت ہی بہادری سے لڑے اور بہت سے دشمنوں کو فنار کیا اور یزیدی لشکر کے بہت سے دشمنوں کو واصل جہنم بھی کیا
ادھر نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا امام حسین علیہ السلام نے تیمم کیا اور نماز عصر کے لیے کھڑے ہو گئے یزیدی فوج نے تیروں کی برسات کر دی لیکن پھر بھی کوئی اپ کے نزدیک نہیں آ سکتا تھا
جب آپ علیہ السلام سجدہ ریز ہوئے تو شمر ملعون نے آپ پہ تلوار کا حملہ کیا اور آپ کا سر تن سے جدا کر دیا۔
بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے یزید کے دربار میں ایک یادگار خطبہ دیا بی بی زینب نے یزید کو کہا تو ساری طاقت بھی لگا دے تو تو میرے نانا کے دین کو نہیں مٹا سکتا اسلام اور ہمارا نام قیامت تک رہے گا۔
آج 1400 سال گزر چکے ہیں کربلا اج بھی زندہ ہے اور قیامت تک رہے گا۔

لعنت

0

لعنت

بہت عرصہ پہلے بڑے جنگل کے کنارے ایک چھوٹا سا گاؤں تھا یہ گاؤں بہت پرامن گاؤں تھا اس گاؤں کے لوگ لو بی زون کے خوف میں مبتلا تھے یہ گاؤں کیونکہ جنگل کے قریب تھا اس وجہ سے اس جنگل میں وہ لوبیزون رہتا تھا لوبیززون ایک تاریکی مخلوق تھی

یہ آدھا بھیڑیا اور آدھے انسان کی شکل میں تھا۔ اس کے بارے میں بہت مشہور تھا گاؤں میں کہ جب بھی پورے چاند کی رات ہوتی تھی یہ جنگل سے باہر انسانی گوشت کی تلاش میں آتی تھی۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ایسی مخلوق کیسے وجود میں آئی۔ یہ اس گاؤں میں سادہ بات تھی کسی بھی خاندان میں پیدا ہونے والے ساتویں بیٹے پر لعنت: وہ لعنت کسی بیٹی پر نہیں پڑے گی اس گاؤں میں یہ بہت مشہور تھا کہ جب ایک ماں سات بیٹوں کو جنم دیتی تھی تو اس میں سے آخری بیٹا لوبیزون پیدا ہوتا تھا۔

اسی گاؤں میں ایک خاندان آباد تھا اور اس خاندان میں فلپ نام کا ایک لڑکا جو کہ ساتواں بیٹا تھا اپنی ماں کا وہ پیدا ہوا۔ فلپ جب پیدا ہوا تو اس کی ماں بہت خوفزدہ تھی اسے بیٹی کی امید تھی بیٹے کی نہیں۔ لیکن فلپ کی ماں بہت مہربان اور پیار کرنے والی عورت تھی۔ وہ اپنے بچے سے پیچھے ہٹنے والی نہیں تھی اسے کوئی بھی فرق نہیں پڑتا تھا کہ گاؤں والے اس کو برا بھلا کہیں کیونکہ وہ اس کی اولاد تھی۔

کئی سال سکون میں گزر گئے اور فلپ جوان اور بڑا ہو گیا اس کے ماں اور باپ اس سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ لیکن فلپ یہ نوٹس کرنے سے نہیں رہ سکا اس کے ساتھ اس کے بھائیوں سے مختلف سلوک کیا گیا تھا وہ سکول نہیں گیا کیونکہ استاد اس کی اجازت نہیں دیتا تھا بہت ذہین تھا اور وہ کچھ نیا سیکھنے کے لیے ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتا رہتا تھا اور شدت سے دوسرے بچوں کے ساتھ دوستی بھی کرنا چاہتا تھا۔

جب بھی فل اپ کی ماں اپنے بیٹے کو روٹی لانے کے لیے بھیجتی تھی لوگ کبھی بھی اس کے راستے میں نہیں آتے تھے اور گاؤں کے لوگ ہمیشہ اسے ناراضگی اور خوف کے امتزاج میں دیکھتے تھے۔ فلپ ان چیزوں کی وجہ سے بہت بے چین ہو گیا تھا اور جب بھی پورا چاند نکلتا تھا تو فلپ کے گھر والے اسے کہیں باہر نہیں جانے دیتے تھے یہ اخری نقطہ شاید سب سے برا تھا کہ جب بھی پورے چاند کی رات ہوتی تھی پورا چاند اپنی اب و تاب کے ساتھ چمکتا تھا تو فلپ کی خوشی انتہا تک پہنچ جاتی تھی کیونکہ وہ چاند سے بہت محبت کرتا تھا۔ ایسی صورت میں فلپ ناچنے گانے اور بھاگنے پر مجبور ہو جاتا تھا۔

زندگی پر امن ہونے کے باوجود خوشی سے بہت دور تھی فلپ نے ہر گزرتے وقت کے ساتھ خود کو الگ تھلگ پایا۔ لوگ اس سے محبت نہیں کرتے تھے کوئی اس کے ساتھ دوستی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اپ فلم یہ بھی محسوس کرنے لگا تھا کہ اس کی ماں اور بھائی بھی اس کو عجیب سے نظروں سے دیکھنے لگے تھے۔

فلپ اکثر اپنے اپ سے پوچھتا تھا کہ میرے ساتھ ایسا کیوں؟ میں اتنا بڑا لڑکا نہیں ہوں اور کام کاج بھی بہت اچھے طریقے سے کرتا ہوں میں کسی سے بدتمیزی بھی نہیں کرتا ہوں پھر بھی لوگ مجھ سے برا سلوک کرتے ہیں۔

   جیسے ہی 15ویں کی سالگرہ کو قریب پہنچا فلپ پہلے سے کہیں زیادہ اداس تھا اس کی ماں اس سے بہت ہی کم باہر جانے دیتی تھی وہ اکثر اس کی صحبت سے مشتعال نظر آتی تھی کم عمر بچے جب اس کے گھر کے پاس سے کھیلتے ہوئے گزرتے تھے تو اس کے اوپر پتھر پھینک دیتے تھے لیکن فلپ کو جب غصہ آتا تھا تو وہ جب ان کے اوپر للکارتا تھا تو سب ڈر کے مارے بھاگ جاتے تھے فلپ کی اکثر جنگل جانے کی خواہش ہوتی تھی اور کبھی بھی واپس انے کی خواہش نہیں کرتا تھا۔

ایک دن فلپ کی ماں اپنے بیٹے کے پاس بیٹھی اور اس سے بتایا کہ تم میرے ساتھ میں بیٹے ہو اور میرے بچے تم پر لعنت ہے

فل پی یہ سن کر حیران رہ گیا اور ماں سے پوچھا کس قسم کی لعنت ہے اس کی ماں نے اسے بتایا کہ تمپندرویں سالگرہ پہ آدھا بھیڑیا اور آدھا انسان بن جاؤ گے

فلپ اپنی کتابوں سے لوبیزون کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا ان کہانیوں سے جو اس کے بھائیوں نے اس سے شیئر کی تھیں۔ جب بھی انہیں لگتا تھا کہ وہ بستر پہ سو رہا ہے لیکن اس بارے میں انہوں نے فلپ کو کبھی نہیں بتایا تھا فلپ لوبیزون نہیں بننا چاہتا تھا اور نہ ہی وہ ظالم بننا چاہتا تھا اس سے اپنے پورے جسم پہ موٹی کھال اور لمبے پنجوں کے بارے میں بالکل یقین نہیں تھا۔

اپنےپندرویں سالگرہ کے موقع پر فلپ اس سے پہلے کبھی بھی اتنا اداس نہیں ہوا تھا جتنا آج اداس ہو رہا تھا  وہ اکیلے بستر پہ بیٹھ کر رونے لگا اور خود سے باتیں کرنے لگا کہ وہ اکیلا ہو چکا ہے۔ میرے ساتھ ہمیشہ دوسروں کے مقابلے میں مختلف سلوک کیا گیا اور اب میں لوبیزون جیسی لعنت کا شکار ہو چکا ہوں فلک بہت زیادہ پریشان تھا وہ چاہتا تھا کہ گاؤں کے لوگ اس سے پیار کریں وہ بالکل دوسروں کی طرح زندگی گزارنا چاہتا تھا وہ کھیلنا کودنا چاہتا تھا۔

  فلپ نے اسی وقت کمرے کی کھڑکی کھولی اور چاند اور ستاروں کو دیکھنے لگا چاند بہت خوبصورت اور اب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا یہ نظارہ دیکھ کر فلپ کا دل خوشی سے مچل رہا تھا۔ پھر کچھ عجیب ہوا فلپ کے پیٹ میں کچھ ہلچل سی ہونا شروع ہو گئی اپنی جلد پہ خارش محسوس کرنے لگا۔ اس کے سینے سے چیخنے کی آواز آئی اس نے سر اٹھا کر اسمان کی طرف دیکھا اور بھیڑیے کی طرح چیخنے لگا اس طرح کی حرکت اس نے پہلے کبھی نہیں کی تھی۔ اس کے جسم پر اچانک کھال پھوٹ آئی اور اس کے ہاتھوں اور پاؤں پہ ہاتھی کے دانتوں کی طرح لمبے لمبے سے ناخن نکل آئے اس کا جسم پھول گیا اور وہ بھیڑیا نما کی شکل کی طرح بن گیا اور اس کے کپڑے پھٹ کر نیچے گر گئے

فلپ نے جب آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا تو وہ بھیڑیے کی طرح بن چکا تھا اس کی انکھیں سرخ ہو چکی تھی اندھیرے میں خوفناک طریقے سے چمک رہی تھی۔

تو میں ایک لوبیزون ہوں” فلپ نے چونک کر کہا۔

فلپ نے چاند اور جنگل کی پکار کو محسوس کیا اور وہ جانتا تھا کہ اب وقت آگیا ہےوہ اپنی پرانی زندگی سے منہ موڑ لے اور اپنی تقدیر کو گلے لگا لے۔

نوجوان بھیڑیے والے لڑکے نے اپنے کمرے کی کھڑکی کھول دی اور چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہو گیا لیکن تھوڑی دیر کے لیے وہ رک گیا اور پیچھے مڑ کر اپنے کمرے کو آخری بار دیکھنے لگا اور اپنے ماں باپ اور بھائیوں کے بارے میں سوچنے لگا میں اپ کو ہمیشہ یاد رکھوں گا “میرے پیارے خاندان” لیکن اب مجھے قبول کرنا چاہیے کہ میں کون ہوں اور اپنی نئی زندگی کا آغاز کروں گا۔

پھر اس نے سونے والے کمرے کی کھڑکی سے چھلانگ لگا کر جنگل کی طرف بھاگا اور چیختا گیا اس کا دل مستقبل کے لیے عجیب نئی امید سے بھرا رہتا تھا۔

جب فلپ بڑے گہرے جنگل میں تھا تو اس نے ایک خوبصورت سی جگہ پہ رک کر قدیم درختوں میں اوپر چاند کی طرف دیکھا جو کہ بہت ہی خوبصورت نظارہ دکھائی دے رہا تھا۔ وہ چیختا چلاتا چھلانگ لگاتا اور خوشی سے ناچتا۔ جب اخر کار اس نے چیخنا اور چلانا بند کر دیا اس نے دیکھا کہ دیگر لوبیزون بھی اس جنگل کے ارد گرد جمع تھے کچھ فلپ کی طرح جوان اور کچھ بوڑھے تھے۔

وہ فلپ کے پاس پہنچے اور اس کا استقبال کیا!

تم اب اس گھر میں ہو دوستوں کے درمیان ایک جنگل میں ایک نے نرم اور شفیق لہجے میں کہا اور یہ تب ہی تھا جب فلپ کو احساس ہوا کہ وہ بالکل بھی لعنتی نہیں ہے۔

میں ایک لوبیزون ہوں اور میں اپنے گھر میں ہوں اس نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا جب اس نے پورے چاند تک اپنا سر اٹھایا اور پوری طاقت سے چیخا۔ دوسرے لوبیزون نے بھی اس کے ساتھ شمولیت اختیار کی اور چاند کے اعزاز میں رات کے آسمان پر ایک زبردست گروپ میں گانا گایا-

کئی میل دور فلپ کی ماں اپنے باغ میں کھڑی تھی اور ایک بڑے سے جنگل کے اندر سے ہلکی سی ہوا کا جھونکا محسوس کر رہی تھی اور لو بیزون کی آواز سن رہی تھی بوڑھی عورت مسکرائی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کے ساتویں بیٹے نے آخر کار اپنا گھر ڈھونڈ لیا ہے جہاں اس کا استقبال کیا جائے گا جہاں اس کے بہت سارے دوست ہوں گے اور وہ اپنی خوشگوار زندگی گزارے گا۔

اور واقعی اب لوبیزون بہت ہی خوش تھا اور اپنی بہت ہی پرسکون اور خوشگوار زندگی گزارنے لگا۔

سرکس کا گھوڑا

0

سرکس کا گھوڑا

جوکی ایک کم عمر کا گھوڑا تھا جو بہت ہی خوبصورت تھاجس نے سرکس کی دنیا میں آنکھ کھولی تھی لیکن اسے سرکس پسند نہیں تھی اسے  آزاد رہنا پسند تھا-
اس کی ماں چاہتی تھی کہ جوکی سرکس کہ کرتب سیکھنے میں دلچسپی لے اس کی ماں کو ڈر تھا کہ کہیں اس کو ناکارہ سمجھ کر کمپنی والے  بیچ نہ دیں- جوکی کی ماں کی خواہش تھی کہ وہ سرکس کی دنیا میں مستقل حصہ بن کے میرے پاس رہے۔ آج بھی ماسٹر نے جوکی کو کرتب  سکھانے کی کوشش کی لیکن جوکی نے کوئی دلچسپی نہیں لی-
جوکی کی ماں مالکوں کے اشارے سمجھتی تھی اگر جوکی نے دلچسپی نہیں لی تو وہ اس کو نکال دیں گے-
اس نے سوچا میں نے آج تک جوکی کے ساتھ سختی کی ہے لیکن اب وہ اس سے پیار سے سمجھائے گی- جوکی بہت خوبصورت گھوڑا تھا اور بچے اس کو بہت زیادہ پسند کرتے تھے, بچے جوکی کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں تالیاں بجاتے شور شرابہ کرتے اور پیسے پھینکتے تھے جوکی اگر مزید اس طرح کے کرتب دکھاتا تو بہت زیادہ وہ مشہور بھی ہو جاتا لیکن   دلچسپی نہ لینے کی وجہ سے اس کی ماں بہت زیادہ روتی رہتی تھی۔
جوکی سے اپنی ماں کے آنسو برداشت نہیں ہوئے اور اس نے وعدہ کیا کہ آئندہ کے بعد وہ کرتب سیکھے گا۔ اگلے دن پریکٹس کے بعد جوکی کے ماسٹر نے سیڑھی پہ چڑھنے کا اشارہ کیا۔ تو جوکی بڑے پرسکون انداز میں سیڑھی پہ چڑھ گیا۔ یہ دیکھ کر ماسٹر کا سر بھی فخر سے بلند ہو گیا۔
جوکی اَب صیح کمالات دکھا رہا تھا۔ اور اس کی ماں بھی بہت خوش تھی۔ جوکی اب بہت محنتی اور ہونہار ہو چکا تھا۔
سرکس تمام ہوئ اور اب کمپنی والے دوسرے شہر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔
اس دفعہ کمپنی نے جس قصبے میں ڈیرہ جمایا تھا، اس کے نزدیک ایک گھنا جنگل تھا۔
جوکی نے جنگل کا سنا تو فوراً اس نے سیر کی ٹھان لی۔ کمپنی والے ادھر سرکس کے لیے خیمے لگا رہے تھے اور جوکی اچانک عقبی راستے سے جنگل کی طرف نکل گیا۔ جوکی جنگل کا نظارہ دیکھ کے پاگل ہی ہو گیا۔ وہ جنگل کا بھرپور مزہ لینے لگا۔ کہ اچانک اسے آہٹ محسوس ہوئ۔
اس نے پیچھے مڑ کہ دیکھا تو ہکا بکا رہ گیا۔ کچھ ہی فاصلے پہ شیر جوکی پہ نظریں جماۓ کھڑا تھا۔ جیسے ہی شیر کو احساس ہوا جوکی نے اس کو دیکھ لیا ہے، شیر نے فوراً سے جوکی پہ حملہ کیا۔ جوکی نے بھی مخالف سمت میں چھلانگ لگائ اور تیزی سے دوڑا۔ جوکی خود کو بچانے کے لیے درخت پہ چڑھ گیا۔ اب جوکی ہنر مند تھا اس نے خود کو دو شاخوں کے درمیان متوازن کر لیا۔
شیر نے اپنا سر جھٹکا، اور زور سے دھاڑنے لگا۔ اور درخت کا چکر کاٹنے لگا۔ جوکی سمجھ گیا کہ شیر شکار کے بغیر نہیں جاۓ گا۔
جوکی کو احساس ہوا کہ گھر سب سے محفوظ جگہ ہوتی ہے۔ باہر کی دنیا میں قدم قدم پہ خطرات ہوتے ہیں۔ خطرح ابھی ٹلہ نہیں تھا۔ شیر ابھی بھی درخت کے نیچے چکر لگا رہا تھا۔ ادھر جوکی کی ماں بہت زیادہ پریشان ہو رہی تھی جو کہ واپس اصتبل نہیں آیا تھا۔ آخر کار جوکی کی ماں کی دعائیں رنگ لے آئیں جو اس کے ساتھ تھیں۔
موسم اچانک خراب ہو گیا بادل چھا گئے اور بہت ہی زیادہ تیز بارش برسنے لگی۔ جوکی نے خدا کا شکر ادا کیا اور اس طرح اس نے اپنی پیاس بجھائی کیونکہ اس کو پیاس بہت زیادہ لگی ہوئی تھی- اور ساتھ ہی اس نے درخت کے پتے کھائے شیر نیچے سے سارا یہ منظر دیکھ رہا تھا اور بہت زیادہ بھیک چکا تھا بارش کی وجہ سے کافی ٹائم گزر چکا تھا اور شیر بہت زیادہ تھک بھی گیا تھا اس وجہ سے مایوس ہوتے ہوئے شیر وہاں سے چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جوکی درخت سے نیچے آیا اور ارد گرد کا جائزہ لیا تو شیر جا چکا تھا-
جوکی نے فوراً ہی دوڑ لگا دی اپنے گھر پہنچنے کے لیے کیونکہ جوکی کے گھر والے اور اس کی ماں بہت زیادہ پریشان تھی جیسے ہی جوکی گھر پہنچا سب لوگ اسے دیکھ کے بہت زیادہ خوش ہوئے آج جوکی بہت زیادہ خوش تھا اور خاص طور پر اپنی ماں کی وجہ سے کیونکہ اس کی ماں اس کو کہتی تھی کہ وہ ہنر سیکھ لے اور اس ہنر کی وجہ سے آج جوکی کی زندگی بچ گئی۔ بزرگ سچ ہی کہتے ہیں ہنر کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں ضرور ہی کام آتا ہے ۔

علی انگوٹھا

0

علی انگوٹھا

ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک جوڑے کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام علی تھا- بچہ اپنے والدین کے توقع کے مطابق ٹھیک نہیں تھا- جب وہ پیدا ہوا تو انگوٹھے سے بھی چھوٹا تھا پہلے تو اس کے ماں باپ بہت زیادہ پریشان ہوئے لیکن پھر انہوں نے سوچا کہ یہی دین خدا ہے- اور ایک دن ہمارا بیٹا بڑا اور مضبوط بنے گا سال گزرتے گئے لیکن علی بڑا نہیں ہوا وہ اسی طرح کا چھوٹا سا چھوٹا ہی تھا- شام کو جب بھی وہ کھانے پر بیٹھتے علی کی ماں ٹیبل پہ پلیٹ رکھ دیتی اور اس میں چائے کا چمچ سوپ سے بھرتی اور علی کو پلاتی علی کے ماں باپ جب گھر پہ ہوتے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا سب ٹھیک تھا- لیکن جب وہ گھر سے باہر نکلتے تو ان کو یہی بات کھا جاتی کہ کوئی اگر اس کو دیکھ لے تو سب لوگ اس کو چھیڑیں گےاس لیے اس کو نظروں سے پوشیدہ ہی رکھتے تھے۔

مزید اور سال بھی بیت گئے اور علی نے 20ویں سالگرہ منائی علی کا قد تو بہت زیادہ چھوٹا تھا- لیکن اس کی آواز بہت زیادہ اونچی اور بلند تھی علی ہر وقت اداس رہتا تھا کیونکہ اس کا کوئی دوست نہیں تھا ایک دن علی کے والد بازار جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے- علی نے اپنے والد سے التجا کی کہ اسے بھی ساتھ لے کر جائیں, لیکن اس کے والد بہت زیادہ پریشان نظر آئے کیونکہ وہ اس کو اس کے چھوٹے قد کی وجہ سے باہر نہیں لے کر جا سکتے تھے علی کے والد بہت زیادہ بوڑھے ہو چکے تھے اور رات کا سفر نہیں کر سکتے تھے علی نے اپنے والد سے کہا کہ آپ مجھے ساتھ لے کر جائیں اور ویسے بھی میرا قد بہت چھوٹا ہے تو میں آپ کی جیب میں آرام سے آ جاؤں گا- اس میں ایک سوراخ کر دیجیے گا میں آرام سے سانس بھی لے پاؤں گا اور لطف اندوز بھی ہو سکوں گا نظارے دیکھ ک
علی کی پرزور خواہش اور اس کے اظہار پر اس کا باپ اسے منع نہ کر سکا-
دونوں باپ اور بیٹا سفر کے لیے روانہ ہوئے سارا دن سفر کرنے کے بعد سڑک کے کنارے ایک ہوٹل پر پہنچے علی کے والد نے کہا ہم یہاں رات کریں گے اور کل ہم گھر واپس جانے سے پہلے صبح سویرے بازار جائیں گے- نوجوان بہت پرجوش تھا کیونکہ اس نے اپنے سفر میں بہت کچھ دیکھا تھا, علی کے والد نے ایک کمرے کی ادائیگی کی اور رات کے کھانے کی تیاری کے لیے اپنا بیگ سیڑھیوں سے اوپر لے گئے اس کے بعد بوڑھا ادمی سیدھا باورچی خانہ چلا گیا ہے- کھانے کا سامان لینے کے لیے اس کا بیٹا بھوکا تھا اچانک ہوٹل میں چور گھس ائے- اور سب سے قیمتی سامان لوٹنے لگے جن میں علی کا والد بھی تھا چور بہت بے دردی سے بٹوے اور زیورات لوٹ رہے تھے, اچانک کہیں سے بہت گہری اواز ائی اپنے بندوق نیچے کرو میں تم لوگوں کو پولیس کے حوالے کر دوں گا چونکہ چوریہ نہیں بتا سکتے تھے کہ اواز کہاں سے ا رہی ہے اس لیے انہوں نے خود کو باور کرایا اس کا تعلق کسی بھوت سے ہے چوروں کو بھوتوں سے بہت زیادہ ڈر لگتا تھا اگرچہ سارے چور ڈر کے بھاگ گئے سب لوگ بہت زیادہ خوش ہوئے کہ چور بھاگ گۓ لیکن ساتھ ساتھ وہ بھی بہت زیادہ بھوت کی وجہ سے ڈر رہے تھے اس لیے کمروں میں چھپ جانا چاہتے تھے علی کے والد نے کہا یہ  بھوت نہیں ہے یہ میرا بیٹا ہے علی کے والد نے اس کو جیب سے باہر نکالا علی کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی اور سب لوگ اس کا بہت زیادہ شکریہ ادا کر رہے تھے علی کے والد کو اپنے بیٹے پہ بہت زیادہ فخر ہوا-
صبح ہوتے ہی ہوٹل سے علی کے والد باہر نکلے اور اپنے بیٹے کو کندھے پہ بٹھا لیا, علی کے والد کو راہگیروں سے علی کا تعارف کروانے کے لیے کئی بار رکنا پڑا علی کے والد کو بہت فخر محسوس ہوا اور اس نے سب کو بتایا کہ اس نے کس طرح تینوں چوروں سے سب کو بچایا تھا- علی کی والدہ بہت زیادہ پریشان ہو رہی تھی کیونکہ ٹائم بہت زیادہ ہو چکا تھا اور ابھی تک گھر نہیں پہنچے تھے جب علی کی والدہ نے بیٹے کو باپ کے کندھے پہ دیکھا تو کہا کہ اس سے چھپاؤ لیکن علی کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور اس کے والد کے چہرے پہ بھی مسکراہٹ تھی علی کے والد نے سارا واقعہ اس کی ماں کو بتایا,

علی کی ماں کو واقعی بہت فخر ہوا جب اس نے اپنے بیٹے کی بہادری کی داستان سنی، اور وعدہ کیا کہ وہ اسے کبھی نہیں چھپائے گی یا پھر کبھی شرمندگی محسوس نہیں کرے گی۔

اس دن کے بعد سے، علی انگوٹھے نے ہمیشہ اپنے والدین کے کندھوں پر سفر کیا ہے، وہ جہاں بھی جاتے ہیں، اور اس نے بہت سے کام دیکھے اور کیے ہیں اور بہت سی مہم جوئیاں کی ہیں۔

لالچ بُری بلا ہے

0

لالچ بُری بلا ہے

ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک نوجوان گاؤں میں رہتا تھا اس کو سکے جمع کرنے کا بہت زیادہ شوق تھا اور ہر وقت اس کو ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں اس کی یہ تھیلی کہیں گھوم نہ جائے اس لیے ہر وقت وہ تھیلی اپنے پاس رکھتا تھا ایک دن اس کی تھیلی بہت زیادہ بھر چکی تھی اور اب اس میں سکے جمع کرنے کی گنجائش نہیں رہی تھی اب وہ سوچ رہا تھا کہ اس تھیلی کو کہاں پر اس کی حفاظت کرے

راستے میں وہ چلتا رہا اور راستے میں ایک پل آ گیا پل سے جب گزرنے لگا تو اچانک اس کا پاؤں پھسل گیا پھسلتے ہی اس کی تھیلی نہر کے اندر گر گئی –

لڑکا بڑی مشکلوں سے اپنے اپ کو بچاتا ہوا نہر سے باہر نکلا لیکن تھیلی اس کے ہاتھ سے گر چکی تھی اب وہ بہت زیادہ پریشان تھا کہ  تھیلی کو کہاں سے  ڈھونڈ کر لائے –

آخر کار تھکا ہارا وہ گھر پہنچا اور اس کے ذہن میں خیال آیا کہ صبح ہوتے ہی وہ اعلان کرائے گا کہ اس کی سونے کی تھیلی گم ھو گئ ہے۔ جو بھی اس تھیلی کو لے کر آئے گا وہ اس میں سے 10 10 سونے کے سکے انعام کے طور پہ دے گا –

صبح ہوتے ہی اس لڑکے نے اعلان کروایا اور ٹھیک کچھ عرصے کے بعد ایک کسان اس کے پاس آیا اور اس نے وہی تھیلی اس کے ہاتھ میں تھما دی لڑکا بہت زیادہ خوش ہوا۔ کسان نے جب اپنے انعام کا مطالبہ کیا تو لڑکے نے فوراً ارادہ تبدیل کیا اور کسان پہ الزام لگا دیا  کہ اس میں ایک موتی کا سکہ تھا جو کہ اس میں نہیں ہے تو وہ اس نے چرا لیا ہے اس وجہ سے وہ اس کو کوئی بھی انعام نہیں دے گا کسان نے کہا کہ اگر مجھے چوری کرنا ہوتی تو میں تمہارے پاس یہ تھیلی لے کر ہی نہ آتا اس تھیلی کے اندر تو ایک موتی کی گنجائش بھی اب باقی نہیں رہی یہ تھیلی ساری بھری ہوئی ہے –

لڑکا نہ مانا اور اس نے کہا کہ میں تمہیں عدالت لے کر جاؤں گا اور وہاں پہ میں تمہیں جا کے سزا دلواؤں گا کہ تم نے میرا موتی چوری کیا ہے لڑکے نے سارا واقعہ عدالت میں گوش گزار کیا جج نے پورا واقعہ سنا اور پھر اس کے بعد اس نے عوام سے بھی کہا کہ آپ لوگوں کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے تو سب لوگوں نے یہی کہا کہ اگر کسان نے چوری کرنا ہوتی تو وہ تھیلی لڑکے کے پاس لے کر ہی نہ آتا لیکن اس کے اندر کسی قسم کی کوئی لالچ نہیں تھی وہ بغیر لالچ کے اس لڑکے کے پاس وہ تھیلی لے کر آیا اور صرف اس نے اپنا انعام کا مطالبہ کیا –

  تھیلی ساری کی ساری بھری ھوئ تھی اس میں تو ایک موتی کی گنجائش ہی نہیں تھی جج نے سارے واقعے کو بہت اچھے طریقے سے سنا بھی اور فیصلہ اپنا سنایا کہ یہ تھیلی اس لڑکے کی نہیں ہے یہ تھیلی اس کسان کو دی جائے گی اور اس طرح سے وہ لالچی لڑکا اس تھیلی سے بھی ہاتھ گنوا بیٹھا۔

کہانی کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمیں لالچ نہیں کرنی چاہیے اور کسی کا حق بھی نہیں کھانا چاہیے۔

عقلمند بندر

0
{"remix_data":[],"remix_entry_point":"challenges","source_tags":["local"],"origin":"unknown","total_draw_time":0,"total_draw_actions":0,"layers_used":0,"brushes_used":0,"photos_added":0,"total_editor_actions":{},"tools_used":{"addons":1},"is_sticker":false,"edited_since_last_sticker_save":true,"containsFTESticker":false}

عقلمند بندر

ایک دفعہ کا ذکر ہے، کسی جنگل میں ایک ظالم شیر رہتا تھا۔ شیر ہر روز دو یا تین جانوروں کو ہلاک کر دیتا تھا۔ جنگل کے جانور اس سے ڈرتے تھے، اسی جنگل میں ایک بندر رہتا تھا جو بہت شرارتی نہیں تھا۔ ایک دن وہ کسی کام سے جنگل میں پھر رہا تھا۔ اچانک شیر نے اس کے بچوں اور ساتھیوں کو مار ڈالا۔ جب بندر جنگل سے واپس آیا تو اپنے بچوں اور ساتھیوں کو مرا ہوا پایا۔ اسے معلوم ہو گیا کہ یہ حرکت شیر نے کی ہے۔ بندر بولا کہ وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک بدلا نہیں لے لیتا۔ بندر نے سوچا کے وہ اکیلا تو کچھ نہیں کر سکتا اس کے لیے ساتھیوں کی ضرورت ہو گی۔ لیکن اس نے پھر سوچا کہ سارے اس کے ساتھی شیر سے ڈرتے ہیں۔
بندر نے منصوبہ بنایا اور جنگل کے جانوروں کو اکھٹا کیا اور کہا کہ اگر ہم نے شیر کا کچھ نہ کیا تو وہ ہم سب کو مار دے گا تو ہمیں بہت جلد شیر کو مارنا ہو گا۔ اتنے میں سب تیار ہو گئے شیر کو مارنے کے لیے۔
اتنے میں بوڑھا ہرن پونچتا ہے اور کہتا ہے کے شیر کو مارے گا کون؟ بندر بولا کہ ہم میں سے تو کوئ نہی مار سکتا۔ لیکن شیر کو شیر مار سکتا ہے۔ سب جانور حیران ہو گۓ اور بولے وہ کیسے۔ بندر بولا ابھی جاو صبح ملاقات ہو گی۔
صبح کچھ ڈرپوک جانور شیر کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بندر آپکو مروانے کے لیے دوسرا شیر لا رہا ہے۔ شیر ہنسا اور کہنے لگا صبح میں نہی وہ مارا جا ۓ گا میرے ہاتھوں۔
صبح جب شیر ایک جگہ پہنچتا ہے تو کچھ دور اس کو دوسرا شیر بیٹھا نظر آتا ہے۔
ظالم شیر دوسرے شیر کو مارنے کے لیے اس کی طرف دوڑتا ہے اور اچانک کھائ میں گر جاتا ہے- اور اندر پڑی نوکدار لکڑیاں خنجر کی طرح شیر کے جسم میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ اور شیر وہی پہ مر جاتا ہے۔ اور اس طرح بندر نقلی شیر کی کھال اتار کے پھینکتا ہے اور سب جانور  خوش بھی ہوۓ اور حیران بھی ہوۓ۔ بندر بولا کہ میں نے تم سے جھوٹ بولا کہ اس جنگل میں ایک اور شیر بھی ہے تانکہ تم شیر کو بتاؤ اور اسطرح شیر غصے میں آیا اور کھائ میں جا گرا۔ اس طرح جنگل کے سب جانور خوش ہوئے اور خوشی خوشی رہنے لگے۔

Inspirational Quotes

5
{"remix_data":[],"remix_entry_point":"challenges","source_tags":["local"],"origin":"unknown","total_draw_time":0,"total_draw_actions":0,"layers_used":0,"brushes_used":0,"photos_added":0,"total_editor_actions":{},"tools_used":{"addons":1,"transform":1},"is_sticker":false,"edited_since_last_sticker_save":true,"containsFTESticker":false}

Inspirational Quotes provides motivation and encouragement and will make you feel like you can accomplish something. Inspirational quotes will make you happy and you will learn a lot of things in your life. Inspirational quotes have the power to change your prospective and can stick with you for life. Inspirational Quotes motivate people to achieve their goals. Inspirational quotes encourage you to stay inspired is to work with creative and positive people. So here is the beautiful and sensational inspirational quotes to change your life…..

اگر ہم سے غلطی ہو جائے تو ابلیس کی طرح دلیر نہیں ہونا چاہئے

بلکہ معافی مانگ لینی چاہئے کیونکہ ہم ابن آدم ہیں ابن ابلیس نہیں۔

 

نفرتیں پالنے والے لوگ بہت کمزور ہوتے ہیں جن میں محبتیں نبھانے کی سکت نہیں ہوتی۔

 

خلوص اور عزت بہت مہنگے تحفے ہیں اس لیے ہر کسی سے ان کی امید نہ رکھو

کیونکہ بہت کم لوگ دل کے امیر ہوتے ہیں۔