لعنت

بہت عرصہ پہلے بڑے جنگل کے کنارے ایک چھوٹا سا گاؤں تھا یہ گاؤں بہت پرامن گاؤں تھا اس گاؤں کے لوگ لو بی زون کے خوف میں مبتلا تھے یہ گاؤں کیونکہ جنگل کے قریب تھا اس وجہ سے اس جنگل میں وہ لوبیزون رہتا تھا لوبیززون ایک تاریکی مخلوق تھی

یہ آدھا بھیڑیا اور آدھے انسان کی شکل میں تھا۔ اس کے بارے میں بہت مشہور تھا گاؤں میں کہ جب بھی پورے چاند کی رات ہوتی تھی یہ جنگل سے باہر انسانی گوشت کی تلاش میں آتی تھی۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ایسی مخلوق کیسے وجود میں آئی۔ یہ اس گاؤں میں سادہ بات تھی کسی بھی خاندان میں پیدا ہونے والے ساتویں بیٹے پر لعنت: وہ لعنت کسی بیٹی پر نہیں پڑے گی اس گاؤں میں یہ بہت مشہور تھا کہ جب ایک ماں سات بیٹوں کو جنم دیتی تھی تو اس میں سے آخری بیٹا لوبیزون پیدا ہوتا تھا۔

اسی گاؤں میں ایک خاندان آباد تھا اور اس خاندان میں فلپ نام کا ایک لڑکا جو کہ ساتواں بیٹا تھا اپنی ماں کا وہ پیدا ہوا۔ فلپ جب پیدا ہوا تو اس کی ماں بہت خوفزدہ تھی اسے بیٹی کی امید تھی بیٹے کی نہیں۔ لیکن فلپ کی ماں بہت مہربان اور پیار کرنے والی عورت تھی۔ وہ اپنے بچے سے پیچھے ہٹنے والی نہیں تھی اسے کوئی بھی فرق نہیں پڑتا تھا کہ گاؤں والے اس کو برا بھلا کہیں کیونکہ وہ اس کی اولاد تھی۔

کئی سال سکون میں گزر گئے اور فلپ جوان اور بڑا ہو گیا اس کے ماں اور باپ اس سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ لیکن فلپ یہ نوٹس کرنے سے نہیں رہ سکا اس کے ساتھ اس کے بھائیوں سے مختلف سلوک کیا گیا تھا وہ سکول نہیں گیا کیونکہ استاد اس کی اجازت نہیں دیتا تھا بہت ذہین تھا اور وہ کچھ نیا سیکھنے کے لیے ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتا رہتا تھا اور شدت سے دوسرے بچوں کے ساتھ دوستی بھی کرنا چاہتا تھا۔

جب بھی فل اپ کی ماں اپنے بیٹے کو روٹی لانے کے لیے بھیجتی تھی لوگ کبھی بھی اس کے راستے میں نہیں آتے تھے اور گاؤں کے لوگ ہمیشہ اسے ناراضگی اور خوف کے امتزاج میں دیکھتے تھے۔ فلپ ان چیزوں کی وجہ سے بہت بے چین ہو گیا تھا اور جب بھی پورا چاند نکلتا تھا تو فلپ کے گھر والے اسے کہیں باہر نہیں جانے دیتے تھے یہ اخری نقطہ شاید سب سے برا تھا کہ جب بھی پورے چاند کی رات ہوتی تھی پورا چاند اپنی اب و تاب کے ساتھ چمکتا تھا تو فلپ کی خوشی انتہا تک پہنچ جاتی تھی کیونکہ وہ چاند سے بہت محبت کرتا تھا۔ ایسی صورت میں فلپ ناچنے گانے اور بھاگنے پر مجبور ہو جاتا تھا۔

زندگی پر امن ہونے کے باوجود خوشی سے بہت دور تھی فلپ نے ہر گزرتے وقت کے ساتھ خود کو الگ تھلگ پایا۔ لوگ اس سے محبت نہیں کرتے تھے کوئی اس کے ساتھ دوستی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اپ فلم یہ بھی محسوس کرنے لگا تھا کہ اس کی ماں اور بھائی بھی اس کو عجیب سے نظروں سے دیکھنے لگے تھے۔

فلپ اکثر اپنے اپ سے پوچھتا تھا کہ میرے ساتھ ایسا کیوں؟ میں اتنا بڑا لڑکا نہیں ہوں اور کام کاج بھی بہت اچھے طریقے سے کرتا ہوں میں کسی سے بدتمیزی بھی نہیں کرتا ہوں پھر بھی لوگ مجھ سے برا سلوک کرتے ہیں۔

   جیسے ہی 15ویں کی سالگرہ کو قریب پہنچا فلپ پہلے سے کہیں زیادہ اداس تھا اس کی ماں اس سے بہت ہی کم باہر جانے دیتی تھی وہ اکثر اس کی صحبت سے مشتعال نظر آتی تھی کم عمر بچے جب اس کے گھر کے پاس سے کھیلتے ہوئے گزرتے تھے تو اس کے اوپر پتھر پھینک دیتے تھے لیکن فلپ کو جب غصہ آتا تھا تو وہ جب ان کے اوپر للکارتا تھا تو سب ڈر کے مارے بھاگ جاتے تھے فلپ کی اکثر جنگل جانے کی خواہش ہوتی تھی اور کبھی بھی واپس انے کی خواہش نہیں کرتا تھا۔

ایک دن فلپ کی ماں اپنے بیٹے کے پاس بیٹھی اور اس سے بتایا کہ تم میرے ساتھ میں بیٹے ہو اور میرے بچے تم پر لعنت ہے

فل پی یہ سن کر حیران رہ گیا اور ماں سے پوچھا کس قسم کی لعنت ہے اس کی ماں نے اسے بتایا کہ تمپندرویں سالگرہ پہ آدھا بھیڑیا اور آدھا انسان بن جاؤ گے

فلپ اپنی کتابوں سے لوبیزون کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا ان کہانیوں سے جو اس کے بھائیوں نے اس سے شیئر کی تھیں۔ جب بھی انہیں لگتا تھا کہ وہ بستر پہ سو رہا ہے لیکن اس بارے میں انہوں نے فلپ کو کبھی نہیں بتایا تھا فلپ لوبیزون نہیں بننا چاہتا تھا اور نہ ہی وہ ظالم بننا چاہتا تھا اس سے اپنے پورے جسم پہ موٹی کھال اور لمبے پنجوں کے بارے میں بالکل یقین نہیں تھا۔

اپنےپندرویں سالگرہ کے موقع پر فلپ اس سے پہلے کبھی بھی اتنا اداس نہیں ہوا تھا جتنا آج اداس ہو رہا تھا  وہ اکیلے بستر پہ بیٹھ کر رونے لگا اور خود سے باتیں کرنے لگا کہ وہ اکیلا ہو چکا ہے۔ میرے ساتھ ہمیشہ دوسروں کے مقابلے میں مختلف سلوک کیا گیا اور اب میں لوبیزون جیسی لعنت کا شکار ہو چکا ہوں فلک بہت زیادہ پریشان تھا وہ چاہتا تھا کہ گاؤں کے لوگ اس سے پیار کریں وہ بالکل دوسروں کی طرح زندگی گزارنا چاہتا تھا وہ کھیلنا کودنا چاہتا تھا۔

  فلپ نے اسی وقت کمرے کی کھڑکی کھولی اور چاند اور ستاروں کو دیکھنے لگا چاند بہت خوبصورت اور اب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا یہ نظارہ دیکھ کر فلپ کا دل خوشی سے مچل رہا تھا۔ پھر کچھ عجیب ہوا فلپ کے پیٹ میں کچھ ہلچل سی ہونا شروع ہو گئی اپنی جلد پہ خارش محسوس کرنے لگا۔ اس کے سینے سے چیخنے کی آواز آئی اس نے سر اٹھا کر اسمان کی طرف دیکھا اور بھیڑیے کی طرح چیخنے لگا اس طرح کی حرکت اس نے پہلے کبھی نہیں کی تھی۔ اس کے جسم پر اچانک کھال پھوٹ آئی اور اس کے ہاتھوں اور پاؤں پہ ہاتھی کے دانتوں کی طرح لمبے لمبے سے ناخن نکل آئے اس کا جسم پھول گیا اور وہ بھیڑیا نما کی شکل کی طرح بن گیا اور اس کے کپڑے پھٹ کر نیچے گر گئے

فلپ نے جب آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا تو وہ بھیڑیے کی طرح بن چکا تھا اس کی انکھیں سرخ ہو چکی تھی اندھیرے میں خوفناک طریقے سے چمک رہی تھی۔

تو میں ایک لوبیزون ہوں” فلپ نے چونک کر کہا۔

فلپ نے چاند اور جنگل کی پکار کو محسوس کیا اور وہ جانتا تھا کہ اب وقت آگیا ہےوہ اپنی پرانی زندگی سے منہ موڑ لے اور اپنی تقدیر کو گلے لگا لے۔

نوجوان بھیڑیے والے لڑکے نے اپنے کمرے کی کھڑکی کھول دی اور چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہو گیا لیکن تھوڑی دیر کے لیے وہ رک گیا اور پیچھے مڑ کر اپنے کمرے کو آخری بار دیکھنے لگا اور اپنے ماں باپ اور بھائیوں کے بارے میں سوچنے لگا میں اپ کو ہمیشہ یاد رکھوں گا “میرے پیارے خاندان” لیکن اب مجھے قبول کرنا چاہیے کہ میں کون ہوں اور اپنی نئی زندگی کا آغاز کروں گا۔

پھر اس نے سونے والے کمرے کی کھڑکی سے چھلانگ لگا کر جنگل کی طرف بھاگا اور چیختا گیا اس کا دل مستقبل کے لیے عجیب نئی امید سے بھرا رہتا تھا۔

جب فلپ بڑے گہرے جنگل میں تھا تو اس نے ایک خوبصورت سی جگہ پہ رک کر قدیم درختوں میں اوپر چاند کی طرف دیکھا جو کہ بہت ہی خوبصورت نظارہ دکھائی دے رہا تھا۔ وہ چیختا چلاتا چھلانگ لگاتا اور خوشی سے ناچتا۔ جب اخر کار اس نے چیخنا اور چلانا بند کر دیا اس نے دیکھا کہ دیگر لوبیزون بھی اس جنگل کے ارد گرد جمع تھے کچھ فلپ کی طرح جوان اور کچھ بوڑھے تھے۔

وہ فلپ کے پاس پہنچے اور اس کا استقبال کیا!

تم اب اس گھر میں ہو دوستوں کے درمیان ایک جنگل میں ایک نے نرم اور شفیق لہجے میں کہا اور یہ تب ہی تھا جب فلپ کو احساس ہوا کہ وہ بالکل بھی لعنتی نہیں ہے۔

میں ایک لوبیزون ہوں اور میں اپنے گھر میں ہوں اس نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا جب اس نے پورے چاند تک اپنا سر اٹھایا اور پوری طاقت سے چیخا۔ دوسرے لوبیزون نے بھی اس کے ساتھ شمولیت اختیار کی اور چاند کے اعزاز میں رات کے آسمان پر ایک زبردست گروپ میں گانا گایا-

کئی میل دور فلپ کی ماں اپنے باغ میں کھڑی تھی اور ایک بڑے سے جنگل کے اندر سے ہلکی سی ہوا کا جھونکا محسوس کر رہی تھی اور لو بیزون کی آواز سن رہی تھی بوڑھی عورت مسکرائی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کے ساتویں بیٹے نے آخر کار اپنا گھر ڈھونڈ لیا ہے جہاں اس کا استقبال کیا جائے گا جہاں اس کے بہت سارے دوست ہوں گے اور وہ اپنی خوشگوار زندگی گزارے گا۔

اور واقعی اب لوبیزون بہت ہی خوش تھا اور اپنی بہت ہی پرسکون اور خوشگوار زندگی گزارنے لگا۔

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here