جب ظافر جن کربلا کے میدان میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔
بحر العلم کے فتح ہو جانے کے بعد امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے جنوں کے بادشاہ کے قتل ہو جانے کے بعد ظافر جن کو جو کہ مسلمان ہو چکا تھا اس کی جگہ بادشاہ مقرر فرمایا اور اس کی تاج پوشی رسم میں آئی اس کی تاج پوشی کے 30 سال بعد جبکہ زافر تاج پوشی کا جشن منا رہا تھا جشن آراستہ تھا کہ دو جن روتے ہوئے زعفر جن کے پاس آئے زعفر نے ان سے خیریت دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ زمین کربلا سے ابھی گزر کے آئے ہیں اور ہم نے دیکھا کہ امام حسین ابن علی علیہ السلام کربلا میں اکیلے رہ گئے ہیں یارو انصار عزیز و اقرباء اور بھائی بھتیجے سب شہید ہو گئے ہیں۔ اور امام حسین علیہ السلام بلند آواز میں فرما رہے ہیں ھل من الناصر ینصرنا ۔
اور دوسری طرف امام حسین علیہ السلام کے خیموں کہ خیموں سے العتش کی آوازیں آرہی تھیں۔ کہ ہے کوئی جو ہماری مدد کو آۓ۔ یہ سارا واقعہ ان جنوں نے ظافر جن کے سامنے بیان کیا ۔ زافر جن نے تمام باتیں سننے کے بعد جشن بند کر دیا۔ اور ایک بہت بڑی کثیر تعداد لے کر لشکر کے ساتھ کربلا کی طرف روانہ ہو گیا۔
علامہ دربندی نے اس واقعے کو تفصیلاً نقل کیا ہے۔ ظافر جن کہتا ہے کہ جب میں وارد کربلا ہوا امام حسین علیہ السلام کی مدد یاری کے لیے منصور فرشتہ اپنے گروہ کے ساتھ حاضر ہیں اور اس کے گروہ کی تعداد کئی ہزار ہے۔ جبرائیل، میکائیل، اسرافیل بھی اپنے دوسرے فرشتوں کو اپنے ہمراہ لے آئے ہوئے تھے۔ اور منتظرانے امام حسین علیہ السلام تھے-
انبیاء در مرسلین علیہ السلام کی ارواحیں بھی موجود تھیں اور خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی موجود تھے۔ لیکن امام حسین علیہ السلام ایک 1950 زخم کھائے ہوئے لشکر کے سامنے کھڑے تھے اور ارواح انبیاء سامنے موجود تھے۔ ظافر جن نے کہا جب امام حسین علیہ السلام نے میری طرف نظر اٹھا کر دیکھا میری طرف اشارہ کیا اور فرمایا نزدیک آو۔ میں نزدیک گیا اور رقاب دو سن کو بوسہ دیا۔ ظافر جن نے اپنے لشکر کو پیچھے چھوڑا ہوا تھا اور خود امام حسین علیہ السلام کے پاس موجود تھا۔ زافر جن نے امام حسین علیہ السلام کو سلام کیا اور کہا کہ میں آپ کی مدد کرنے کے لیے آیا ہوں ۔
ظافر جن نے کہا میں آپ کے نانا کے ساتھ جنگ بدر میں بھی لڑا تھا۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے لشکر کے ساتھ یزیدی فوج کو تہس نہس کر کے رکھ دوں گا۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا نہیں ظافر صدا صرف انسانوں کے لیے تھی ۔ جواب دینے کے بعد امام حسین علیہ السلام نے فرمایا زافر تم کہاں تھے زافر نے کہا کہ میں اپنے رسم تاج پوشی کا جشن منا رہا تھا کہ مجھے خبر ملی کہ آپ کربلا میں اس حالت میں ہیں۔ میں نے اپنی تاج پوشی کی رسم کو ختم کر دیا اور اپنے لشکر کے ساتھ آپ کی مدد کے لیے آگیا ۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا تمہاری اس وفاداری سے اللہ اور اس کے رسول خوش ہیں۔ لیکن اے ظافر میں تمہیں کس طرح اجازت دوں میرا تو سارا کنبہ شہید ہو چکا ہے ۔ اے ظافر زمین مقتل لاشوں سے بھری ہوئی ہے۔ اللہ تم سے راضی ہے تم واپس چلے جاؤ۔ اس کے بعد زافر جن نے کہا یا مولا مجھے اتنی اجازت ہے کہ میں آپ کی جنگ دیکھ سکوں ۔ امام نے ظافر جن کو جنگ دیکھنے کی اجازت دے دی۔
زافر جن دیکھ رہا تھا امام حسین علیہ السلام بہت دلیری کے ساتھ یزیدیوں کو جہنم واصل کر رہے تھے۔ اور اس طرح سے یزیدی فوج کا مقابلہ کیا کے پورے کے پورے گروہ کو قتل کر دیا۔ ظفر جن یہ تمام واقعات دیکھ رہا تھا اس نے دیکھا کہ ایک نورانی ہاتھ نمودار ہوا اور امام حسین علیہ السلام نے جنگ روک دی۔ زافر جن نے کہا مولا میں نے آپ کی جنگ دیکھ لی۔ لیکن جو ہاتھ بلند ہوا وہ کس کا تھا جس کے ایک اشارے پہ آپ نے جنگ روک دی ۔ امام نے فرمایا وہ میری والدہ کا ہاتھ تھا انہوں نے فرمایا میں نے تمہاری شجاعت دیکھ لی۔ اب صبر کرو۔ شجاعت آپ کو اپنے بابا علی علیہ السلام سے ملی اور صبر اپنی والدہ بی بی فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا سے ملی۔
پھر امام نے فرمایا اے ظافر واپس چلے جاؤ اور میری مصیبت پہ گریا کرو۔ ظافر جن حکم امام حسین علیہ السلام سن کر نصرت کرنے سے مایوس ہو گیا۔ ظافر جن واپس آگیا اور اس نے مجلس برپا کی اور خوب گریا کیا زافر کی ماں نے ان سے پوچھا اے بیٹا یہ کن کی مجلس برپا ہو رہی ہے۔ ظافر جن کا بیٹا بھی آگیا اور اس نے کہا اے بابا یہ آپ کی حالت کیوں ایسی بنائ ہے۔ زعفر نے کربلا کا واقعہ اپنی ماں اور بیٹے کو بتایا۔
زافر کی ماں نے کہا کہ بیٹا میں قیامت میں بی بی فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے سامنے سرخرو ہونا چاہتی ہوں۔ میں تمہاری سفارش امام حسین علیہ السلام کے سامنے کروں گی کہ امام تمہیں جنگ کرنے کی اجازت دے دیں۔ ظافر اور اس کی ماں دونوں جب کربلا پہنچے۔ تو کیا دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک نیزے پہ بلند ہو چکا تھا۔ سرخ اور کالی آندھی چل رہی تھی۔ قیام اہل بیت میں آگ برپا ہو چکی تھی۔ اور اس طرح ظافر جن اپنی تمام عمر مولا کے غم میں روتا رہا۔